Add To collaction

15-Aug-2024 چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
✍️ سمیہ بنت عامر خان
 
میرا ملک ہندوستان جسے آزاد ہوۓ تقریبا 78 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ہر گلی، ہر محلے میں بڑے زور و شور کے ساتھ آج کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ اسکولوں، مدرسوں میں بھی بڑی دھوم دھام سے آزادی کا جشن منایا گیا۔ شہیدوں کی یاد تازہ کی گئی ، ملک کی آزادی کا مطلب اور تاریخ کو دہرایا گیا۔ ملک کی آزادی میں شامل ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی غرض ہر قوم و مذہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کی یاد تازہ کی گئی۔  ملک میں جابجا جشن آزادی کا خمار چھایا ہوا ہے۔جس طرح ایک باغ یا چمن میں مختلف انواع و اقسام کے پھول باغ کو اپنی خوشبو اور رنگت سے دلکش اور معطر کرتے ہے اسی طرح میرا ملک میرا چمن بھارت بھی ہے جانتے ہو اس چمن کی خوشبو کیا ہے ؟ اس چمن کی خوشبو، اس چمن کے پھول یہاں کی رنگا رنگ تہذیب مختلف مذاہب کی ملن ساری اور مذہبوں کا آپسی اتحاد بھائی چارگی محبت اخوت جیسے جذبات اور اس خوشبو سے میرا ہندوستان میرا چمن دلکش و معطر ہے۔ اور ہم اس سرزمین سے کہیں بھی چلے جاۓ لیکن سکون یہی آکر ملتا ہے۔  ہندو مسلم گنگا جمنی تہذیب ایک ساجھا وراثت کے ذریعہ ہی ہمیشہ قائم رہی ہیں۔ لیکن آج ہمارے چمن ہندوستان کو  انگریزوں سے آزاد ہوۓ تقریبا 75 سال ہوچکے ہیں لیکن اب یہ سونے کی چڑیا کہا جانے والے ہندوستان میں  بلڈوزر اور ووٹ بینک کی سیاست کے مد نظر اقوام کو مذاہب اور ذات پات میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہندو مسلم نفرت پچھلے زمانوں میں نہیں ہوتی تھی، ہوتی تھی مگر کسی بڑے پیمانے پر نہیں ۔ اگر کچھ نااتفاقی ہو بھی جاتی تو سماج کے سمجھدار لوگ اسے پیار محبت سے سلجھا لیتے تھے۔  آج ہمارا ملک ہندوستان  سائنس اور ٹیکنالوجی  میں ترقی کی بدولت  ایٹمی طاقت کے زمرے میں پہنچ گیا ہے لیکن اخلاقی گراوٹ اس قدر  پھیل چکی ہے کہ پورے ملک  میں جھوٹ کے میزائل  رواں دواں ہے۔ فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔
نہ وہ عشق میں رہی گرمیاں
نہ وہ حسن میں رہی شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی
نہ وہ خم ہے زلف یار میں 
  آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا گیا کبھی عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کا اقلیتی درجہ ختم کیا گیا تو کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ اتنا ہی نہیں حکومتی اداروں سے مسلمانوں کو بڑی چالاکی سے باہر کیا گیا۔ قانون سازی کرکے مسلم زمین داروں کی زمینیں ضبط کی گئیں۔ تاریخی مساجد پر قبضہ کرنے کے لئے اے ایس آئی  (Archaeological survey, of india) بنا کر مسلمانوں کی نمازوں پر پابندی لگائی گئی۔ اور آہستہ آہستہ ان مساجد کو ختم کیا جارہا ہے۔ لال قلعہ دہلی کی مسجد اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ مسلمانوں کے لباس اور کھانے پینے پر پابندی، مساجد و مدارس کی تعمیر پر پابندی، دستور سے ملے مذہبی حقوق پر پابندی کیا یہی دستوری آزادی ہے؟ آج بھی ہمارے ملک کو آزادی کی ضرورت ہے یہاں کے بچے جو ہمارے ملک کا کل اثاثہ ہے ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہے تعلیم کو Second Hand بنا دیا گیا ہے، پیپر لیک ہورہے، ہر طرف کرپشن کا بول بالا ہے۔ ووٹ کا حق پامال کردیا گیا ، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، ہر گھر بے روزگاری کا چرچا ہے۔بجٹ سے اوسط درجے کے لوگوں کو بے دخل کردیا گیا امیر اور امیر ہوتا جا رہا ہے غریب اپنی غربت میں دھنستے جا رہا ہے۔ کیا اسی کا نام آزادی ہے ؟؟؟ کیا یہی احترام دستور ہے؟؟؟ آزاد ہندوستان آزاد ہو کر بھی مسلسل ناانصافیوں کی زد میں  قید و بند ہے۔ یہ آزاد ملک محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں ہے،  یہ جواہر لال  نہرو کی بصیرت اور مولانا ابوالکلام آزاد کی جرات کا نتیجہ ہے، یہ ملک کے مجاہدین آزادی کی زندگی بھر کی محنت کی تصویر ہے۔ لیکن آزادی کا یہ کیسا نعرہ ہے جہاں بہن بیٹیوں اور ماؤں کی عزت و عصمت کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جہاں انسانی زندگی کو بچانے والی بیٹی کی عزت محفوظ نہیں۔کہاں ہے وہ ایک مکمل خود مختار، سماجوادی، سیکولر جمہوری ہندوستان ؟ کہاں ہے وہ ملک جہاں انسان کی بلا رنگ نسل و مذہب تکریم کی جاتی تھی آزادی کے 78 سال بعد بھی حالات جوں کے توں ہے بلکہ مزید دگرگوں ہیں۔ یہ جدید آزاد ملک انگریزوں کی غلامی سے تو آزاد ہے لیکن خلق خدا حیران ہے کہ یہ کیسی آزادی ہے جہاں اب بلڈوزر کی حکمرانی ہے ملک کے ان حالات کو دیکھنے کے بعد ذہن و قلب سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ گھر گھر ترنگا گھر کی چھت پر لہراۓ یا ملبے کے ڈھیر پر !؟؟؟یہ سارے مناظر دیکھ کر ذہن میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ جو آزادی حاصل ہے اسے کیسے محفوظ کیا جاۓ؟ ہمارے درمیان موجود  بلارنگ نسل و مذہب کے خلا کو ہم کیسے دور کریں؟ بلڈوزر کی سیاست کو کس طاقت کے بل بوتے پر روکا جاۓ؟ بیٹیوں کی عزت و تکریم کو کس طرح محفوظ کیا جاۓ؟  غرض یہ کہ ہم ان 78 سالوں بعد بھی ایک ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہیں، اب بھی ہمیں  مہاتما گاندھی جی، بابا صاحب امبیڈ کر ، اشفاق، بسمل اور جوہر جیسی سوچ کی ضرورت ہے۔ اتحاد، اتفاق، وفاداری اور محبت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے جہاں کی ضرورت ہے جہاں نفرت ہو نا تعصب ہو بس انسانیت کی خدمت ہو۔

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں‌ آئی

   2
1 Comments

Yusuf

15-Aug-2024 08:40 AM

👍

Reply